homeo

Monday 16 July 2018

اینٹی بائیوٹکس کے ایسے نقصانات جن کا ازالہ ناممکن

ہر کیمیکل کے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں۔ لہذا باقی کیمیکلز کے سائیڈ ایفیکٹس کی طرح اینٹی بائیوٹکس کے بھی بہت سے نقصانات ہیں، جن میں سب سے نقصان دہ شے اینٹی بائیوٹکس کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا ہو جانا ہے، جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جسم میں موجود بیکٹیریا نے خود کو ان اینٹی بائیوٹکس کے مقابلے کے لیے تیار کر لیا ہے اور وہ اینٹی باڈیز کے خلاف مدافعت کر سکتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہو چکا ہے، تو پھر انسانی جسم کسی بھی بیماری کے خلاف مدافعت نہیں کر پائے گا، چاہے وہ چھوٹی سی بیماری کیوں نہ ہو۔

اینٹی بائیوٹکس جادواثر ادویات ہیں۔ 1940 میں متعارف کروائے جانے کے بعد سے اب تک ان کی مدد سے لاتعداد ایسی جانیں بچائی جا چکی ہیں جو کہ پہلے کئی قسم کی متعدی بیماریوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتی تھیں۔ایک اندازے کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کی 100 سے زیادہ اقسام ہیں، جن میں اکثر کے نام عموماً سننے میں آتے ہیں مثلاً پینی سیلین، ایماکسیسیلین، اریتھرومائی سین، ٹیٹرا سائیکلین، سپروفلوکسین وغیرہ، اور ان میں سے ہر ایک دوا کو کسی مخصوص انفیکشن کو ٹارگٹ کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔یہ ادویات بیکٹیریا کو مار دیتی ہیں یا پھر انہیں بڑھنے سے روک دیتی ہیں۔لیکن یہی انٹی بائیوٹکس کئی وائرل انفیکشنز مثلاً فلو، نظامِ تنفس کے انفکشن، الرجیز اور کئی قسم کے کان کے درد اور گلے کے پکنے کو نہیں روک پاتیں۔
اینٹی بائیوٹکس کی بات کرتے ہوئے اکثر جس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹکس برے بیکٹریا کے ساتھ ساتھ اچھے بیکٹیریا ، جو جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتا ہے، کو بھی ختم کردیتی ہیں۔اس کے علاوہ ان کے مضر صحت سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں، جو کہ بعض ادویہ کے معاملے میں کافی زیادہ پائے گئے ہیں۔دوسرے لفظوں میں، اینٹی بائیوٹکس کافی سنجیدہ نوعیت کی ادویہ ہیں جنہیں روز مرہ کا معمول نہیں بنانا چاہیے۔

لیکن کئی لوگ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان ادویات کا استعمال صرف اس بنا پر جاری رکھتے ہیں کہ انہیں ان سے وقتی طور پر آرام مل جاتا ہے۔در حقیقت جس بات سے وہ نظر چرا رہے ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کو مسلسل کھانے سے وہ اپنے جسم کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں جو کہ بہت بڑا رسک ہے ، ایک ایسا رسک جو انہیں ہسپتال پہنچا سکتا ہے۔
بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ رسک صرف ایک مریض تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے، کیونکہ اگر ان ادویہ کو درست تشخیص کیے بنا ہی تجویز کر دیا جائے ، یا بغیر تجویز کیے ہی لینا شروع کر دیا جائے ، تو جسم میں موجود نقصان دہ بیکٹیریا خون میں موجود ان اینٹی بائیوٹکس کے خلاف وقت کے ساتھ ساتھ مدافعت پیدا کر لیتا ہے، جس کی بنا پر دوا کی اثر پذیری کم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات دوا سرے سے اثر ہی نہیں کرتی۔
لہٰذا اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اینٹی بائیوٹکس صرف بیکٹیریل انفیکشن کے لیے کار آمد ہیں۔ وائرل یا فنگل انفیکشن کی صورت میں ان کا کوئی کردار نہیں ۔علاوہ ازیں کئی اینٹی بائیوٹکس صرف مخصوص قسم کے بیکٹیریا کے خلاف کار آمد ہیں۔ایک بہت بڑا مسئلہ معالجین کی جانب سے ان ادویہ کا بہت بڑی تعداد میں یا ضرورت سے زیادہ مقدار میں تجویز کرنا بھی ہے ، خاص کر ایسے کیسز کی صورت میں جہاں ان کی سرے سے ضرورے ہی نہ تھی۔

دیکھا جائے تو اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے کئی نقصانات ہیں۔ مثال کے طور پر سب سے پہلا نقصان معاشی طور پر ہوتا ہے جب مریض ایسی ادویہ پر پیسے خرچ کرتا رہتا ہے جن کی اسے ضرورت ہیں نہیں ہوتی یا ایسی ادویہ جو انہیں فائدہ نہیں پہنچا رہی ہوتیں۔انفرادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اینٹی بائیوٹکس کھانے والے مریض کی آنتوں میں پائے جانے والا فائدہ مند بیکٹیریا ان ادویہ کی وجہ سے مارا جا سکتا ہے اور نقصان دہ بیکٹیریا ادویہ کے خلاف مدافعت اختیار کر سکتا ہے۔
اجتماعی طور پر اگر انہی اینٹی بائیوٹکس کا انسانوں اور جانوروں میں استعمال بلاضرورت اور زیادہ ہونا شروع ہونے کی صورت میں گوشت ، انسانی اور جانوروں کے فضلے کی صورت میں ماحول میں یہ اینٹی بائیوٹکس بیکٹیریا میں مدافعت میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں ، جس کا نتیجہ مزید تیز اینٹی بائیوٹکس کی تیاری کی صورت میں نکل سکتا ہے اور اس طرح یہ سرکل ایک ایسی صورت اختیار کر سکتا ہے جہاں بیکٹریا کو مارنا اور بیماریوں کو ختم کرنا یا ان سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہو جائے گا

No comments:

Post a Comment

ذیابطیس كیا ہے  ذیابیطس ایک ایسا دائمی مرض ہے، جس میں خون کی شوگر مطلوبہ حد سے بڑھ جاتی ہے ذیابطیس لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون انسول...